جانے پھر تم سے ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
کھل کے دکھ درد کی کچھ بات کبھی ہو کہ نہ ہو
پھر ہجوم غم و جذبات کبھی ہو کہ نہ ہو
تم سے کہنے کو کوئی بات کبھی ہو کہ نہ ہو
آج تو ایک ہی کشتی میں ہیں منجدھار میں ہم
پھر یہ مجبورئ حالات کبھی ہو کہ نہ ہو
عہد ماضی کے فسانے ہی سنا لیں تم کو
اتنی خاموش کوئی رات کبھی ہو کہ نہ ہو
جو جلاتا ہے مرے غم کے اندھیروں میں چراغ
میرے ہاتھوں میں وہی ہات کبھی ہو کہ نہ ہو
غزل
جانے پھر تم سے ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
بی ایس جین جوہر