جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
ٹھنڈی سڑک بنی ہے یہاں سے وہاں تلک
جلتے ہیں غم سے جان و دل و سینہ و جگر
چاروں طرف ہے آگ بجھاؤں کہاں تلک
بیمار ہو گیا ہوں میں قحط شراب سے
للہ لے چلو مجھے پیر مغاں تلک
مسجد سے دور ہے یہ دکاں مے فروش کی
آتی نہیں ہے کان میں بانگ اذاں تلک
نکلا جو دم تو راحت و آرام ہے اسیرؔ
آوارگی ہے جسم کی روح رواں تلک
غزل
جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
اسیر لکھنوی