EN हिंदी
جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک | شیح شیری
jaane lage hain ab dam-e-sard aasman talak

غزل

جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک

اسیر لکھنوی

;

جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
ٹھنڈی سڑک بنی ہے یہاں سے وہاں تلک

جلتے ہیں غم سے جان و دل و سینہ و جگر
چاروں طرف ہے آگ بجھاؤں کہاں تلک

بیمار ہو گیا ہوں میں قحط شراب سے
للہ لے چلو مجھے پیر مغاں تلک

مسجد سے دور ہے یہ دکاں مے فروش کی
آتی نہیں ہے کان میں بانگ اذاں تلک

نکلا جو دم تو راحت و آرام ہے اسیرؔ
آوارگی ہے جسم کی روح رواں تلک