EN हिंदी
جانے کیوں پیاس کی چوکھٹ پہ وہ آ بیٹھا ہے | شیح شیری
jaane kyun pyas ki chaukhaT pe wo aa baiTha hai

غزل

جانے کیوں پیاس کی چوکھٹ پہ وہ آ بیٹھا ہے

نعمان فاروق

;

جانے کیوں پیاس کی چوکھٹ پہ وہ آ بیٹھا ہے
میں نے ہر گام نیا ابر جسے بخشا ہے

ایک لمحے کو بھی مڑ کے نہیں دیکھا اس نے
جانے والے کو بہت دور تلک دیکھا ہے

خاک سے پاک لبادوں کی مہک آتی ہے
قافلہ دشت کے آنگن میں کھلا کس کا ہے

معجزہ اس کو ہی کہتی ہے یہ دنیا شاید
مجھ کو امید نہ تھی پر وہ پلٹ آیا ہے

اک نظر میں نے جسے پیار سے دیکھا نعمانؔ
وہ پرندہ مری دہلیز پہ آ بیٹھا ہے