جانے کیوں پیاس کی چوکھٹ پہ وہ آ بیٹھا ہے
میں نے ہر گام نیا ابر جسے بخشا ہے
ایک لمحے کو بھی مڑ کے نہیں دیکھا اس نے
جانے والے کو بہت دور تلک دیکھا ہے
خاک سے پاک لبادوں کی مہک آتی ہے
قافلہ دشت کے آنگن میں کھلا کس کا ہے
معجزہ اس کو ہی کہتی ہے یہ دنیا شاید
مجھ کو امید نہ تھی پر وہ پلٹ آیا ہے
اک نظر میں نے جسے پیار سے دیکھا نعمانؔ
وہ پرندہ مری دہلیز پہ آ بیٹھا ہے

غزل
جانے کیوں پیاس کی چوکھٹ پہ وہ آ بیٹھا ہے
نعمان فاروق