جانے کیوں گھر میں مرے دشت و بیاباں چھوڑ کر
بیٹھتی ہیں بے سر و سامانیاں سر جوڑ کر
کتنی نظریں کتنی آسیں کتنی آوازیں یہاں
لوٹ جاتی ہیں در و دیوار سے سر پھوڑ کر
جانے کس کی کھوج میں پیہم بگولے آج کل
پھر رہے ہیں شہر کی گلیوں میں صحرا چھوڑ کر
مجھ پہ پتھر پھینکنے والوں کو تیرے شہر میں
نرم و نازک ہاتھ بھی دیتے ہیں پتھر توڑ کر
بس رہا ہوں آج اس ماحول میں ساجدؔ جہاں
لوگ باراتوں میں جاتے ہیں جنازے چھوڑ کر
غزل
جانے کیوں گھر میں مرے دشت و بیاباں چھوڑ کر
اقبال ساجد