جانے کیا وجہ بیگانگی ہے
شہر میں جو بھی ہے اجنبی ہے
آگ سی میرے دل میں لگی ہے
پھر بھی کتنی خنک چاندنی ہے
رات بھر شمع تنہا جلی ہے
تب کہیں رات جا کر کٹی ہے
ان کو کھو کر بھی میں جی رہا ہوں
یہ کسی اور کی زندگی ہے
زہر غم کام کر بھی چکا ہے
مسکراہٹ لبوں پر وہی ہے
تاب کے جام روشن رکھو گے
رات بھی اب تو ڈھلنے لگی ہے
آج تو تم بھی سو جاؤ عشقیؔ
آج تو درد میں بھی کمی ہے

غزل
جانے کیا وجہ بیگانگی ہے
شاہد عشقی