جانے کیا سوچ کے ہم تجھ سے وفا کرتے ہیں
قرض ہے پچھلے جنم کا سو ادا کرتے ہیں
کیا ہوا جام اٹھاتے ہی بھر آئیں آنکھیں
ایسے طوفان تو ہر شام اٹھا کرتے ہیں
دل کے زخموں پہ نہ جاؤ کہ بڑی مدت سے
یہ دیے یوں ہی سر شام جلا کرتے ہیں
کون ہے جس کا مقدر نہ بنی تنہائی
کیا ہوا ہم بھی اگر تجھ سے گلا کرتے ہیں
رشتۂ درد کی میراث ملی ہے ہم کو
ہم ترے نام پہ جینے کی خطا کرتے ہیں
غزل
جانے کیا سوچ کے ہم تجھ سے وفا کرتے ہیں
کیلاش ماہر