جانے کیا چہرے کی اب حالت ہوئی
آئینہ دیکھے ہوئے مدت ہوئی
آنسوؤں تک دل نے پہنچا دی خبر
رازداری باعث شہرت ہوئی
کر لئے روشن وہیں دل کے چراغ
راہ میں حائل جہاں ظلمت ہوئی
جام کا کیا ذکر ٹوٹے ساز تک
اک فقیہ شہر سے حجت ہوئی
یاد نے ہر زخم تازہ کر دیا
خود خلش اپنی جگہ لذت ہوئی
ہم رہے بیدار ان کی یاد میں
ان کو اپنے خواب سے نسبت ہوئی
پوچھتا تھا کون تیرے شہر میں
پاؤں کی زنجیر سے عزت ہوئی
دیکھ کر ان کی نوازش بے کراں
آج صائبؔ عرض کی ہمت ہوئی

غزل
جانے کیا چہرے کی اب حالت ہوئی
محمد صدیق صائب ٹونکی