EN हिंदी
جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے | شیح شیری
jaane kya aaseb tha patthar aate the

غزل

جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے

عشرت آفریں

;

جانے کیا آسیب تھا پتھر آتے تھے
رات گئے کچھ سائے چھت پر آتے تھے

صبح وہ کیاری پھولوں سے بھر جاتی تھی
تم جس کی بیلوں میں چھپ کر آتے تھے

میں جس رستے پر نکلی اس رستے میں
صحراؤں کے بیچ سمندر آتے تھے

چاند کی دھیمی دھیمی چاپ ابھرتے ہی
سارے سپنے پھول پہن کر آتے تھے

اس سے میری روح میں اترا ہی نہ گیا
رستے میں دو گہرے ساگر آتے تھے

خوابوں کے یاقوت سے پوریں زخمی ہیں
راس مجھے کب ایسے زیور آتے تھے