جانے کو جائے فصل گل آنے کو آئے ہر برس
ہم غم زدوں کے واسطے جیسے چمن ویسے قفس
رخصت ہوا بیمار غم بالیں سے اٹھے ہم نفس
تدبیر تو کرتے ہیں سب تقدیر پر کس کا ہے بس
محشر میں اس بے درد سے گر پوچھ گچھ نے داد کی
آیا ہوں میں فریاد کو فریاد سن فریاد رس
ممکن نہیں میں چھٹ سکوں دام وفا و عشق سے
باندھے گئے سب دست و پا جکڑی گئی ایک ایک نس
قطع منازل میں کروں تو کس سہارے پر کروں
مفقود اہل کارواں مسدود آواز جرس
تو اور دعویٰ عشق کا یہ بھی خدا کی شان ہے
منصور بننے کے لئے دل چاہئے اے بو الہوس
کہنے کو ہے سارا جہاں سچے فدائی ہیں کہاں
دس میں نہ نکلے گا کوئی دس لاکھ میں نکلیں گے دس
جائے بہار آئے خزاں اس کا تردد کچھ نہیں
ہیں لالہ و گل سے سوا مجھ کو چمن کے خار و خس
طول غم و آزار نے ناشاد مجھ کو کر دیا
ہے ایک گھنٹہ ایک دن ہے اک مہینہ اک برس
کم بخت مرنے کے لئے صیاد کے گھر آئے ہیں
دیکھیں گے اب کیا سیر گل چھٹ کر اسیران قفس
پہنچے سر عرش بریں امید تو ایسی نہیں
ہاتھوں ہی تک محدود ہے میری دعا کی دسترس
قابو میں جب دل ہی نہیں تو کیا کہوں میں درد دل
بڑھ کر ہے تیغ و تیر سے میرے لئے میرا نفس
سو بار دے کر جام و خم ممنون ساقی نے کیا
اس کا تقاضا تھا کہ پی میری گزارش تھی کہ بس
اے خضر آئے لطف کیا مشرب الگ مسلک جدا
مرنے کی حسرت مجھ کو ہے تم کو ہے جینے کی ہوس
ان کے علاوہ کون ہے میرے قریں کوئی نہیں
یا دہنے بائیں آفتیں یا آرزوئیں پیش و پس
جام و سبو کا ذکر کیا بہتا پھرے خود مے کدہ
اے ابر رحمت ٹوٹ کر ایسا برس اتنا برس
کیا ابتدا کیا انتہا جو آئے گا وہ جائے گا
دنیائے فانی کچھ نہیں اللہ بس باقی ہوس
لطف و کرم سے کیا غرض قہر و ستم سے کام لے
بربادیٔ عشاق پر اپنی کمر مضبوط کس
کب تک یہ سیل اشک غم کب تک یہ طوفاں خیزیاں
دنیا فنا ہو جائے گی اے نوحؔ بس اے نوحؔ بس
غزل
جانے کو جائے فصل گل آنے کو آئے ہر برس
نوح ناروی