جانے کتنی اڑان باقی ہے
اس پرندے میں جان باقی ہے
جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں
اب تو بس آسمان باقی ہے
اب وہ دنیا عجیب لگتی ہے
جس میں امن و امان باقی ہے
امتحاں سے گزر کے کیا دیکھا
اک نیا امتحان باقی ہے
سر قلم ہوں گے کل یہاں ان کے
جن کے منہ میں زبان باقی ہے
غزل
جانے کتنی اڑان باقی ہے
راجیش ریڈی