جانے کس واسطے دل چشم کرم مانگے ہے
زندگی آپ سے پھر دیدۂ نم مانگے ہے
ہم کہاں جائیں گے اب تیری گلی سے اٹھ کر
کس کا دل ہے جو یہاں دیر و حرم مانگے ہے
مجھ کو پھولوں کی ہوس ہے نہ تو موتی کی تلاش
کاسۂ چشم مرا دست کرم مانگے ہے
چشم نم کو کسی دامن کی تمنا ہی سہی
دل بیتاب مگر آپ کا غم مانگے ہے
جانے کس واسطے اک شخص کی بہکی ہوئی چال
ہر قدم آپ کے ہی نقش قدم مانگے ہے
کوئی دیوانہ تمناؤں کو زخمی پا کر
زندگی بھر کے لئے رنج و الم مانگے ہے
آئنہ خانوں کی یک رنگی سے اکتا کے رئیسؔ
آذر وقت بھی پتھر کے صنم مانگے ہے
غزل
جانے کس واسطے دل چشم کرم مانگے ہے
رئیس اختر