جانے کس سمت سے ہوا آئی
بار بار اپنی ہی صدا آئی
حسن بھی ہیچ سامنے جس کے
میرے حصے میں وہ بلا آئی
مجھے سجدے کیے فرشتوں نے
کام میرے مری خطا آئی
کیسے برسی گھٹا سمندر پر
اپنی آنکھیں کہاں گنوا آئی
جاگنے کا سوال ہی نہ رہا
آج کی رات نیند کیا آئی
پلٹ آئی امید اس در سے
مری ہی آبرو گنوا آئی
صبر ہی کر لیا تو پھر شہزادؔ
میرے ہونٹوں پہ کیوں دعا آئی
غزل
جانے کس سمت سے ہوا آئی
شہزاد احمد