EN हिंदी
جانے کس سانحۂ درد کے غماز رہے | شیح شیری
jaane kis saniha-e-dard ke ghammaz rahe

غزل

جانے کس سانحۂ درد کے غماز رہے

لطف الرحمن

;

جانے کس سانحۂ درد کے غماز رہے
عہد در عہد بکھرتی ہوئی آواز رہے

گم ہوئی جاتی ہے تاریک خلاؤں میں نظر
اس گھڑی میرے سرہانے مرا دم ساز رہے

اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے ہیں رفتہ رفتہ
اپنے ہی آپ سے کتنے نظر انداز رہے

نارسائی کا یہ دکھ بھی تو مکمل نہ ہوا
ہم ترے ربط میں آغاز ہی آغاز رہے

آ کے واپس نہ گیا کوئی ہوا کا جھونکا
ٹوٹتے لمحوں میں احساس کے در باز رہے