جانے کس موڑ جدائی کی گھڑی آتی ہے
ہجر کی بیل منڈیروں پہ چڑھی آتی ہے
کیا خبر دھوپ کی عادت کو بگاڑا کس نے
بن بلائے میرے آنگن میں چلی آتی ہے
ہجر میں وصل کی بابت نہیں سوچا کرتے
ایسا کرنے سے محبت میں کمی آتی ہے
جانے کیوں وصل کا موسم نہیں آنے دیتا
جانے کیا اس کے خزانے میں کمی آتی ہے
درد کا کوئی تو رشتہ ہے قلم سے نعمانؔ
کچھ بھی لکھتا ہوں تو آنکھوں میں نمی آتی ہے

غزل
جانے کس موڑ جدائی کی گھڑی آتی ہے
نعمان فاروق