EN हिंदी
جانے کس کس کا خیال آیا ہے | شیح شیری
jaane kis kis ka KHayal aaya hai

غزل

جانے کس کس کا خیال آیا ہے

دشینتؔ کمار

;

جانے کس کس کا خیال آیا ہے
اس سمندر میں ابال آیا ہے

ایک بچہ تھا ہوا کا جھونکا
صاف پانی کو کھنگال آیا ہے

ایک ڈھیلا تو وہیں اٹکا تھا
ایک تو اور اچھال آیا ہے

کل تو نکلا تھا بہت سج دھج کے
آج لوٹا تو نڈھال آیا ہے

یے نظر ہے کہ کوئی موسم ہے
یے صبا ہے کہ وبال آیا ہے

ہم نے سوچا تھا جواب آئے گا
ایک بیہودہ سوال آیا ہے