جانے کس کی آہٹ کا انتظار کرتا ہے
ٹوٹ تو چکا ہے وہ دیکھو کب بکھرتا ہے
زخم چاہے جیسا ہو ایک دن تو بھرتا ہے
آپ سوئے ہوتے ہیں وقت کام کرتا ہے
روز چھپ کے تکتا ہے پیاسی پیاسی نظروں سے
اس کے گھر کے آگے سے دریا جب گزرتا ہے
دل کا کیا کروں یارو مانتا نہیں میری
اپنے دل کی سنتا ہے اپنے من کی کرتا ہے
دل بجھا بجھا ہو تو کیا برا ہے رونے میں
بارشوں کے بعد انجم آسماں نکھرتا ہے
غزل
جانے کس کی آہٹ کا انتظار کرتا ہے
انجم لدھیانوی