جانے کس بات سے دکھا ہے بہت
دل کئی روز سے خفا ہے بہت
سب ستارے دلاسہ دیتے ہیں
چاند راتوں کو چیختا ہے بہت
پھر وہی رات مجھ میں ٹھہری ہے
پھر سماعت میں شور سا ہے بہت
تم زمانے کی بات کرتے ہو
میرا مجھ سے بھی فاصلہ ہے بہت
اس کی دکھتی نسیں نہ پھٹ جائیں
دل مسلسل یہ سوچتا ہے بہت
واسطہ کچھ ضرور ہے تم سے
تم کو وہ شخص پوچھتا ہے بہت
تم سے بچھڑا تو ٹوٹ جائے گا
اس کی آنکھوں میں حوصلہ ہے بہت
چکھ کے دیکھو اسے کبھی تم بھی
اس اداسی میں ذائقہ ہے بہت
ان کی سانسیں گنی چنی ہیں بس
خون لمحوں کا بہہ گیا ہے بہت
دشت کو کر لیا تھا گھر میں نے
اب مجھے گھر یہ کاٹتا ہے بہت
اس سے باہر نکل نہ پاؤ گے
دشت ماضی کا یہ گھنا ہے بہت
میرا سکھ دکھ سمجھتی ہیں غزلیں
زندگی کو یہ آسرا ہے بہت
غزل
جانے کس بات سے دکھا ہے بہت
آلوک مشرا