جانے کیسا یہ نور ہے مجھ میں
چاند کوئی ضرور ہے مجھ میں
کوئی پڑھتا نہیں کبھی اس کو
وہ جو بین السطور ہے مجھ میں
جانے کس میں ہے عاجزی میری
جانے کس کا غرور ہے مجھ میں
کہیں باہر نظر نہیں آتا
میرا دشمن ضرور ہے مجھ میں
کرچیاں چبھ رہی ہیں سینے میں
آئنہ چور چور ہے مجھ میں
مدتوں تک سفر میں رہ کر بھی
کوئی منزل سے دور ہے مجھ میں
منتظر ہے کسی تجلی کا
ایک جو کوہ طور ہے مجھ میں
میں یہ محسوس کر رہا ہوں کمالؔ
کوئی مجھ سے ہی دور ہے مجھ میں
غزل
جانے کیسا یہ نور ہے مجھ میں
احمد کمال حشمی