جانے ان آنکھوں نے اس دشت میں دیکھا کیا کیا
میرے سینے میں کوئی شور اٹھا تھا کیا کیا
آج تک پردۂ تعبیر سے باہر نہ ملا
اور ہوتا ہے شب و روز تماشا کیا کیا
شبنم آثار بھلا چین سے بیٹھا کب ہوں
خود کو پھیلاتا رہا آنکھ میں صحرا کیا کیا
ہاں وہی رنگ جو ترتیب نہ پایا مجھ میں
اپنی آنکھوں میں وہ کرتا رہا گہرا کیا کیا
خوب ہوتے ہی رہے سب خوش و ناخوش مجھ میں
مجھ سے شرمندہ رہا زخم و مداوا کیا کیا
ہاتھ پیروں میں کسی شوق کی ہلچل تھی بہت
دیکھتا ہی رہا میں جانب صحرا کیا کیا
اس کی بے مہری کا شکوہ نہیں ہوگا مجھ سے
میں بھی رکھتا تھا کبھی دل میں ارادہ کیا کیا
دور رہتا ہے مگر جنبش لب بوس و کنار
ڈوبتا رہتا ہے دریا میں کنارا کیا کیا
غزل
جانے ان آنکھوں نے اس دشت میں دیکھا کیا کیا
ابو الحسنات حقی