EN हिंदी
جانے اب کھو گیا کدھر پانی | شیح شیری
jaane ab kho gaya kidhar pani

غزل

جانے اب کھو گیا کدھر پانی

نینا سحر

;

جانے اب کھو گیا کدھر پانی
تھا کبھی آنکھ کا گہر پانی

مارو پتھر بھی تو نہیں ہلتا
جم چکا ہے اب اس قدر پانی

آنے والے ہیں کچھ حسیں منظر
تو ابھی آنکھ میں نہ بھر پانی

تب غزل کی گلی پہنچتا ہے
آنکھ سے بہہ کے رات بھر پانی

نہ سمیٹا گیا نہ کام آیا
میں بھی ہوں جیسے ریت پر پانی

میری ہستی سحرؔ ہے بس اتنی
جیسے صحرا میں بوند بھر پانی