جانے اب کھو گیا کدھر پانی
تھا کبھی آنکھ کا گہر پانی
مارو پتھر بھی تو نہیں ہلتا
جم چکا ہے اب اس قدر پانی
آنے والے ہیں کچھ حسیں منظر
تو ابھی آنکھ میں نہ بھر پانی
تب غزل کی گلی پہنچتا ہے
آنکھ سے بہہ کے رات بھر پانی
نہ سمیٹا گیا نہ کام آیا
میں بھی ہوں جیسے ریت پر پانی
میری ہستی سحرؔ ہے بس اتنی
جیسے صحرا میں بوند بھر پانی
غزل
جانے اب کھو گیا کدھر پانی
نینا سحر