جانا کہاں ہے اور کہاں جا رہے ہیں ہم
اپنوں کی رہنمائی سے گھبرا رہے ہیں ہم
تم نے تو اک نگاہ اٹھائی ہے اس طرف
سو سو امیدیں باندھ کے اترا رہے ہیں ہم
ناکام ہو کے اپنی صدا لوٹ آئے گی
یہ جان کر بھی دشت میں چلا رہے ہیں ہم
سب اپنی اپنی راہ پر آگے نکل گئے
اب کس کا انتظار کئے جا رہے ہیں ہم
نہ جانے کس کی یاد نے لی دل میں گدگدی
آئنہ دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہیں ہم
دنیا کے کاروبار سے مطلب نہیں مجیدؔ
دل کو خیال یار سے بہلا رہے ہیں ہم
غزل
جانا کہاں ہے اور کہاں جا رہے ہیں ہم
عبدالمجید خاں مجید