جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو
ٹھہرو ٹھہرو دل تو ٹھہرے مجھ کو ہوش میں آنے دو
پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو
بادل گرجا بجلی چمکی روئی شبنم پھول ہنسے
مرغ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو
ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
موج صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو
کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گمنام صفیؔ
نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقش لحد مٹ جانے دو

غزل
جانا جانا جلدی کیا ہے ان باتوں کو جانے دو
صفی لکھنوی