EN हिंदी
جان یہ کہہ کے بت ہوش ربا نے لے لی | شیح شیری
jaan ye kah ke but-e-hosh-ruba ne le li

غزل

جان یہ کہہ کے بت ہوش ربا نے لے لی

مضطر خیرآبادی

;

جان یہ کہہ کے بت ہوش ربا نے لے لی
کوئی پوچھے تو یہ کہنا کہ خدا نے لے لی

گل مقصود میں اول تو مہک تھی ہی نہیں
اور جو تھی بھی وہ حسرت کی ہوا نے لے لی

سب سے پہلے تو سیاہی مری قسمت کو ملی
جو بچی تھی وہ تری زلف دوتا نے لے لی

جان کمبخت محبت میں بچائے نہ بچی
بت کافر سے جو چھوٹی تو خدا نے لے لی

دم آخر بت بے درد کا دامن چھوٹا
میرے ہاتھوں سے بڑی چیز خدا نے لے لی

چل بسی جان تو اس بات کا غم کیا مضطرؔ
اک امانت تھی خدا کی سو خدا نے لے لی