جاں کے زیاں کو غم کی تلافی سمجھ لیا
کم حوصلوں نے موت کو شافی سمجھ لیا
جو گفتگو میں سب سے ضروری تھا وہ سخن
ان کی سماعتوں نے اضافی سمجھ لیا
اک شرط جستجو بھی تھی منزل کے واسطے
ہم نے بس آرزو کو ہی کافی سمجھ لیا
خوددارئ جنوں میں ان آنکھوں نے تیرے بعد
اشکوں کو بھی وفا کے منافی سمجھ لیا
جاذبؔ نہ جانے کون سی دنیا کا شخص تھا
جس نے سزاؤں کو بھی معافی سمجھ لیا

غزل
جاں کے زیاں کو غم کی تلافی سمجھ لیا
شکیل جاذب