EN हिंदी
جاں فشانی کا واں حساب عبث | شیح شیری
jaan-fishani ka wan hisab abas

غزل

جاں فشانی کا واں حساب عبث

سید یوسف علی خاں ناظم

;

جاں فشانی کا واں حساب عبث
جو کہو اس کا ہے جواب عبث

ماہتاب اور کتاں کا عالم ہے
عارض دوست پر نقاب عبث

قفل در کی کلید نا پیدا
اب تمناے فتح باب عبث

زلف پر خم ہوا سے کیوں نہ ہلے
آپ کھاتے ہیں پیچ و تاب عبث

خط اسے بھیجنا ضرور مگر
دوست سے خواہش جواب عبث

میرے اشعار سب بیاضی ہیں
ہم نشیں فکر انتخاب عبث

ہے ہماری نظر میں حرمت مے
پیچش اہل احتساب عبث

یاں نہیں کفر‌ و دین خوف و رجا
لطف بے فائدہ عتاب عبث

نہ ثواب اس میں ہے نہ اس میں اثر
صبر بے ہودہ اضطراب عبث

وعدہ اس نے کیا تو کیا ناظمؔ
عبث اے خانماں خراب عبث