EN हिंदी
جان ایام‌ دلبری ہے یاد | شیح شیری
jaan-e-ayyam-e-dilbari hai yaad

غزل

جان ایام‌ دلبری ہے یاد

فائز دہلوی

;

جان ایام‌ دلبری ہے یاد
سیر‌ گل زار و مے خوری ہے یاد

دیکھتا نہیں سورج کوں نظراں بھر
جس کوں تجھ جامۂ‌ زری ہے یاد

خوب پھولی تھی باغ میں نرگس
گل صد برگ و جعفری ہے یاد

وہ چراغاں و چاندنی کی رات
سیر ہت پھول‌ و پھلجھڑی ہے یاد

وہ تماشا و کھیل ہولی کا
سب کے تن رخت کیسری ہے یاد

ہو دوانا جنگل میں کیوں نہ پھرے
جس کو وہ سایۂ پری ہے یاد

اے سیہ مست میری انکھیوں کی
لال بادل کی تجھ جھری ہے یاد

جب تمن پاس فائزؔ آیا تھا
بات کہنا بی سرسری ہے یاد