EN हिंदी
جان دے کر وفا میں نام کیا | شیح شیری
jaan de kar wafa mein nam kiya

غزل

جان دے کر وفا میں نام کیا

صوفی تبسم

;

جان دے کر وفا میں نام کیا
زندگی بھر میں ایک کام کیا

بے نقاب آ گیا سر محفل
یار نے آج قتل عام کیا

آسماں بھی اسے ستا نہ سکا
تو نے جس دل کو شاد کام کیا

عشق بازی تھا کام رندوں کا
تو نے اس خاص شے کو عام کیا

اب کے یونہی گزر گئی برسات
ہم نے خالی نہ ایک جام کیا