جان دے دی رہرو منزل نے منزل کے قریب
حوصلے طوفاں کے نکلے بھی تو ساحل کے قریب
وہ نظر بہکی ہوئی پھرتی ہے کیوں دل کے قریب
اس کی منزل بھی ہے شاید میری منزل کے قریب
عزم غرقابی ہے تو منت کش طوفاں نہ بن
کشتیاں لاکھوں ہوئی ہیں غرق ساحل کے قریب
رہرو منزل نے بن کر مرکز یاس و امید
منزلیں لاکھوں بنا لیں اپنی منزل کے قریب
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا چاہئے
موج بھی ساحل نظر آتی ہے ساحل کے قریب
جان دے کر مطمئن ہے رہرو ہمت شکن
دورئ منزل نے پہنچایا ہے منزل کے قریب
دیدنی ہے اس کی حسرت اس کا ارماں اس کا شوق
جس کی کشتی ڈوب جائے آ کے ساحل کے قریب
ڈگمگا جاتے ہیں پائے شوق اکثر اے رئیسؔ
منزلیں ایسی بھی آ جاتی ہیں منزل کے قریب

غزل
جان دے دی رہرو منزل نے منزل کے قریب
رئیس نیازی