جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی
اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کی
وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کی
اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کی
بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا
مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کی
کیا سوئیے پھر غل ہے در یار پہ شاید
چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی
کہہ دو نہ اٹھائے وہ مجھے پاس سے اپنی
جی بیٹھا ہی جاتا ہے اٹھائے سے کسو کی
جب میں نے کہا آئیے من جائیے بولے
ہم اور بھی روٹھیں گے منائے سے کسو کی
چپی میں جو کچھ بات کی میں نے تو یہ بولے
ہم تو نہیں دبنے کے دبائے سے کسو کی
یارو نہ چراغ اور نہ میں شمع ہوں لیکن
ہر شام کو جلتا ہوں جلائے سے کسو کی
پاتا نہیں گھر اس کا سمجھتا ہی نہیں ہے
اس بیت کے معنی بھی بتائے سے کسو کی
جب اس سے کہا میری سفارش میں کسو نے
حاصل بھی رلائے سے کڑھائے سے کسو کی
اک طعن سے یہ ہنس کے لگا کہنے کہ بے شک
ہم رولتے موتی ہیں رلائے سے کسو کی
کہتا ہے کہ احساںؔ نہ کہے گا تو سنے گا
مطلع یہ کہا میں نے کہائے سے کسو کی
غزل
جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کی
عبدالرحمان احسان دہلوی