EN हिंदी
جان آ بر میں کہ پھر کچھ غم و وسواس نہیں | شیح شیری
jaan aa bar mein ki phir kuchh gham-o-waswas nahin

غزل

جان آ بر میں کہ پھر کچھ غم و وسواس نہیں

مرزا اظفری

;

جان آ بر میں کہ پھر کچھ غم و وسواس نہیں
تو نہیں پاس تو پھر کچھ بھی مرے پاس نہیں

تو جلاوے تو جیوں تو ہی جو مارے تو مروں
تجھ سوا مجھ کو تو دارین میں کچھ آس نہیں

نام لینے سے ترا میں ہوں معطر ہوتا
گل جنت میں بھی سنتے ہیں کہ یہ باس نہیں

یارو ہے اظفریؔ اردو کی زباں کا وارث
اہل دہلی ہے وہ باشندۂ مدراس نہیں