جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں
ہم مگر سرحد ادراک کو چھو لیتے ہیں
مے میسر جو نہیں پیاس بجھانے کے لیے
ہم تو چلو میں اب اپنا ہی لہو لیتے ہیں
میری بیگانہ روی مجھ کو بچا لیتی ہے
انتقام اپنی طرف سے تو عدو لیتے ہیں
توڑ دیتے ہیں اسے کس لیے پھر اہل جنوں
مانگ کر خود ہی تو زنجیر گلو لیتے ہیں
صرف آنکھوں کی تسلی کے لیے ہے یہ سیر
رنگ لیتے ہیں نہ ہم پھول سے بو لیتے ہیں
ٹوٹ جائے نہ کسی زخم کا ٹانکا اے دوست
کام ہم ضبط سے ہنگام رفو لیتے ہیں
کیا منورؔ ابھی بالیدگیٔ شوق کا ذکر
کس قدر وقت شجر بہر نمو لیتے ہیں
غزل
جام لیتے ہیں نہ پینے کو سبو لیتے ہیں
منور لکھنوی