جام خالی ہیں مئے ناب کہاں سے لاؤں
آپ کا دیدۂ پر آب کہاں سے لاؤں
کہہ سکوں ان کی نگاہوں کا تبسم جس کو
ایک ایسا دل بے تاب کہاں سے لاؤں
عشق خود اپنی جگہ پر ہے مکمل لیکن
حسن کا جوہر نایاب کہاں سے لاؤں
سامنا تم سے محبت میں جو ہو جائے کبھی
اک نیا عالم اسباب کہاں سے لاؤں
کعبہ و دیر کی راہوں سے گزر جاتا ہوں
محفل ناز کے آداب کہاں سے لاؤں
ایک ہی بار نشیمن پہ گری ہے بجلی
بارہا گلشن شاداب کہاں سے لاؤں
جو کبھی ان کی توجہ کا نتیجہ تھی شجیعؔ
پھر وہی کیفیت خواب کہاں سے لاؤں

غزل
جام خالی ہیں مئے ناب کہاں سے لاؤں
نواب معظم جاہ شجیع