EN हिंदी
جام تہی قبول نہ تھا غم سمو لیے | شیح شیری
jam-e-tahi qubul na tha gham samo liye

غزل

جام تہی قبول نہ تھا غم سمو لیے

محسنؔ بھوپالی

;

جام تہی قبول نہ تھا غم سمو لیے
پھولوں کے انتظار میں کانٹے چبھو لیے

محرومیٔ دوام بھی کیا لطف دے گئی
یہ سوچ کر ہنسے ہیں کہ اک عمر رو لیے

ہم ہیں وہ سادہ لوح کہ پا کر رضائے دوست
خود اپنے ہاتھ اپنے ہی خوں میں ڈبو لیے

جس سمت سے بھی بانگ جرس آئی دشت میں
دیوانگان شوق اسی سمت ہو لیے

پچھلا پہر ہے شب کا کہ ہے شام کا سماں
وہ کیا بتا سکیں گے جو اک نیند سو لیے

کیا جبر ہے ثبوت وفا پیش کیجیے
اور ان کا نام آئے تو پھر لب نہ کھولیے

محسنؔ زبان دیجئے بزم خموش کو
مہمل ہے آج لفظ سخن کچھ تو بولئے