جام دے اور نہ کر وقت پہ تکرار کہ بس
ساقیا ابر اٹھا ہے یہ دھواں دھار کہ بس
کیا تماشا ہے جو کل رات وہ لائے تشریف
بے خودی نے یہ لیا آن کے یکبار کہ بس
کیوں نہ دل ایسے کو دوں میں نے کل ان سے جو کہا
درد ہوتا ہے مرے دل میں یہ اے یار کہ بس
سنتے ہی ہو کہ ہم آغوش کہا ہنس کے تجھے
درد دل کی ہے دوا اور بھی درکار کہ بس
رشک سے کیوں نہ جلے مہر درخشاں معروفؔ
ہے مرے یار کی یہ گرمئ بازار کہ بس
غزل
جام دے اور نہ کر وقت پہ تکرار کہ بس
معروف دہلوی