EN हिंदी
جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے | شیح شیری
jal ragon ka gunj lahu ki sans ke tewar bhul gae

غزل

جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے

ریاض لطیف

;

جال رگوں کا گونج لہو کی سانس کے تیور بھول گئے
کتنی فنائیں کتنی بقائیں اپنے اندر بھول گئے

جنم جنم تک قید رہا اک بے معنی انگڑائی میں
میں ہوں وہ محراب جسے میرے ہی پتھر بھول گئے

جانے کیا کیا گیت سنائے گردش کی سرگوشی نے
بے چہرہ سیارے مجھ میں اپنا محور بھول گئے

بیتی ہوئی صدیوں کا تماشا آنے والے کل کا بھنور
آتے جاتے لمحے مجھ میں اپنا پیکر بھول گئے

اب بھی چاروں سمت ہمارے دنیائیں حرکت میں ہیں
ہم بھی بے دھیانی میں کیا کیا جسم کے باہر بھول گئے

دور کناروں کی ریتوں پر کھوج رہے ہیں آج ریاضؔ
کس کی سونی آنکھوں میں ہم اپنے سمندر بھول گئے