EN हिंदी
جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے | شیح شیری
jagti aankhon mein kaise KHwab dar aane lage

غزل

جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے

پرویز بزمی

;

جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے
راستے میری طرف لے کر سفر آنے لگے

دور تک اڑتی ابابیلوں کی ڈاریں دیکھ کر
اونگھتے پنچھی کے بھی جنبش میں پر آنے لگے

کائنات شب میں چشم جستجو بھٹکی پھری
روشنی کے منطقے آخر نظر آنے لگے

کتنی دردانگیز تھی سونی منڈیوں کی پکار
اڑ گئے تھے جو پرندے لوٹ کر آنے لگے

گھر تو اک دن ہم نے بھی چھوڑا سدھارتھ کی طرح
پھول آنگن کے مگر ہر سو نظر آنے لگے

دھجیاں دامن کی پہلے ہی نمایاں تھیں بہت
کچھ نئے الزام بھی اب میرے سر آنے لگے