جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے
زندگی درد کے انبار میں کھو جاتی ہے
نا خدا عقل کے پتوار اٹھاتا ہے کہ جب
کشتئ دل مری منجدھار میں کھو جاتی ہے
بے سبب سوچنے والے کبھی سوچا تو نے
آگہی کثرت افکار میں کھو جاتی ہے
اڑتے رہتے ہیں خیالات کے جگنو پھر بھی
بات کیوں پردۂ اظہار میں کھو جاتی ہے
اس کے کاموں کا ہے رنگین خوشامد پہ مدار
اور محنت مری ایثار میں کھو جاتی ہے
حرمت پردہ ضروری ہے عطاؔ جی ورنہ
چیز جیسی بھی ہو بازار میں کھو جاتی ہے
غزل
جاگتے ہی نظر اخبار میں کھو جاتی ہے
عطا عابدی