جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے
وقت گزرا جا رہا ہے دھوپ چھت سے ٹل رہی ہے
اک لباس فاخرہ ہے سرخ غرقابی محل ہے
کچھ پرانی ہو گئی ہے پر کہانی چل رہی ہے
اک ستارہ ساز آنکھوں کے کنارے بس رہا ہے
اک محبت نام کی لڑکی بدن میں پل رہی ہے
پاس تھا کھویا نہیں ہے جو نہ تھا اب بھی نہیں ہے
عمر بھر پھر کیوں طبیعت مضطرب بے کل رہی ہے
آنا جانا سانس کا کیا وصل سے مشروط ہے
تو چلے تو تھم رہی ہے تو رکے تو چل رہی ہے
زرد رو وحشت زدہ بھٹکی ہوئی ویران سی
زندگی اک شام ہے اور شام بن میں ڈھل رہی ہے
غزل
جاگتے دن کی گلی میں رات آنکھیں مل رہی ہے
سدرہ سحر عمران