جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے
چھوٹے گہن کہ مجھ کو مری روشنی ملے
کیوں ضبط و احتیاط میں گزرے تمام عمر
اس منتشر دماغ کو بس برہمی ملے
ہر اجنبی سے شہر میں ڈھونڈو خلوص دل
ہر آشنائے شہر سے بے گانگی ملے
جہلائے بد زبان بنیں رہبران قوم
علمائے خوش کلام کو بس گم رہی ملے
اے جذبۂ سپردگی خود کو ذرا سنبھال
ایسا نہ ہو تجھے بھی وہی بے رخی ملے

غزل
جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے
یعقوب راہی