EN हिंदी
جاگ جانے پر نہ جانے کیوں دوبارہ سو گیا | شیح شیری
jag jaane par na jaane kyun dobara so gaya

غزل

جاگ جانے پر نہ جانے کیوں دوبارہ سو گیا

شبانہ زیدی شبین

;

جاگ جانے پر نہ جانے کیوں دوبارہ سو گیا
بادلوں کے درمیاں روشن سویرا ہو گیا

بیچ دریا میں گھری کشتی پر نشاں سب کے سب
دھند کی چادر کوئی اوڑھے کنارہ کھو گیا

تھک تھکا کر رک گیا پرجوش راہی کا سفر
دھوپ کے سائے میں جس دم گرم صحرا ہو گیا

خوش گواری بادبانوں سے عیاں ہونے لگی
ساحلوں پر جا کے جب دریا کا دریا سو گیا

قہقہوں کو روک کر دیکھے شبینہؔ لمحہ بھر
غم کی چوکھٹ پر کوئی آدھا ادھورا ہو گیا