جاگ جانے پر نہ جانے کیوں دوبارہ سو گیا
بادلوں کے درمیاں روشن سویرا ہو گیا
بیچ دریا میں گھری کشتی پر نشاں سب کے سب
دھند کی چادر کوئی اوڑھے کنارہ کھو گیا
تھک تھکا کر رک گیا پرجوش راہی کا سفر
دھوپ کے سائے میں جس دم گرم صحرا ہو گیا
خوش گواری بادبانوں سے عیاں ہونے لگی
ساحلوں پر جا کے جب دریا کا دریا سو گیا
قہقہوں کو روک کر دیکھے شبینہؔ لمحہ بھر
غم کی چوکھٹ پر کوئی آدھا ادھورا ہو گیا

غزل
جاگ جانے پر نہ جانے کیوں دوبارہ سو گیا
شبانہ زیدی شبین