جاگ اور دیکھ ذرا عالم ویراں میرا
صبح کے بھیس میں نکلا ہے گریباں میرا
فطرت آرائے جنوں ہے تن عریاں میرا
میری بیچارگیاں ہیں سر و ساماں میرا
غلبۂ یاس بجا شدت حرماں تسلیم
میں سمجھتا ہوں کہ مرنا نہیں آساں میرا
توڑ کلیاں مگر اے خانہ بر انداز چمن
عرض یہ ہے کہ نشیمن نہ ہو عریاں میرا
تمہیں کیوں مد نظر اب ہے خرابی اس کی
تم تو کہتے تھے کہ گھر ہے دل انساں میرا
تھا یہ فیض نگہ لطف و کرم اے سیمابؔ
ہو گیا حرف غلط دفتر عصیاں میرا
غزل
جاگ اور دیکھ ذرا عالم ویراں میرا
سیماب اکبرآبادی