جادوئے خواب میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے
بارش سنگ ہوئی بھی تو نہ بیدار ہوئے
جب تھے خوش حال بھلے لگتے تھے رشتے غم کے
اب وہی رشتے مری جان کا آزار ہوئے
جب تلک پاؤں میں وحشت تھی جنوں میں طاقت
نہ کسی سائے میں بیٹھے نہ کبھی خار ہوئے
میں نے جب گلف میں کچھ دولت و عزت پائی
عالم فن بھی مرے حق میں رضاکار ہوئے
جب کھلے نقد کے اوصاف بہ فیض نقدی
کچھ رسالوں کے اڈیٹر بھی طرف دار ہوئے
وصل سے جن کے ہے مغرب میں قیامت سی بپا
ان ہی لونڈوں کے لیے میرؔ جی بیمار ہوئے
گولیاں چلنے کو تیار تھیں پہلے سے نعیمؔ
ہم تو بس جھنڈا اٹھانے کے گنہ گار ہوئے
غزل
جادوئے خواب میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے
حسن نعیم