جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا
دوست بچھڑا ہے ہر اک گام پہ کیسا کیسا
دل کا آتش کدہ ویران پڑا تھا کب سے
آنکھ سے بہنے لگا آگ کا دریا کیسا
اس پہ تو فصل خزاں مار چکی ہے شب خوں
موسم گل کے گزر جانے کا کھٹکا کیسا
چاند سے چہرے نظر آنے لگے ہیں کتنے
کھل گیا میری نگاہوں پہ دریچہ کیسا
جس میں اک اشک نہ ہو آنکھ کہاں ہے وہ آنکھ
بوند پانی کی نہ ہو جس میں وہ دریا کیسا
بے تحاشا جو بڑھی جاتی ہے سوئے گرداب
ناؤ نے دیکھ لیا اس میں کنارا کیسا
دیکھ محفل میں ہر اک آنکھ ہے نم یزدانیؔ
تو نے یہ چھیڑ دیا آج فسانہ کیسا

غزل
جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا
یزدانی جالندھری