جادۂ مے پہ گزر خوابوں کا
مڑ گیا سیل کدھر خوابوں کا
زندگی عظمت حاضر کے بغیر
اک تسلسل ہے مگر خوابوں کا
ظلمتیں وحشت فردا سے نڈھال
ڈھونڈھتی پھرتی ہیں گھر خوابوں کا
قریۂ ماہ سے اس بستی تک
روز ہوتا ہے گزر خوابوں کا
صبح نو روز بھی دل کش ہے عروجؔ
اس قدر رنج نہ کر خوابوں کا
غزل
جادۂ مے پہ گزر خوابوں کا
عبد الرؤف عروج