EN हिंदी
جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے | شیح شیری
ja na tu hasrat-e-didar abhi baqi hai

غزل

جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے

تنویر دہلوی

;

جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے
اک رمق مجھ میں دم یار ابھی باقی ہے

کیوں نہ دیکھوں انہیں نظروں سے خریدار کی میں
حسن کی گرمئ بازار ابھی باقی ہے

سب ہوئے حسرت و ارماں تو شب غم میں شہید
رہ گیا اک یہ گنہ گار ابھی باقی ہے

مل کے بھی مجھ سے کھٹکتے رہے ہر بات پہ وہ
خار نکلا خلش خار ابھی باقی ہے

اٹھ کے تنویرؔ کے پہلو سے نہ جانا گھر کو
دوپہر رات ستم گار ابھی باقی ہے