اضطراب خاک امجد میں کہیں رہتا ہے وہ
کائنات روح احمد میں کہیں رہتا ہے وہ
دائرہ در دائرہ صدیاں بلاتی ہیں اسے
سچی آوازوں کے گنبد میں کہیں رہتا ہے وہ
ڈھونڈنے نکلے ہیں جس کو علم کے صحرا میں ہم
درد و غم کی راہ ابجد میں کہیں رہتا ہے وہ
یاد آتا ہے مصیبت میں دعاؤں کی طرح
شہر کے ویران معبد میں کہیں رہتا ہے وہ
منتظر ہے ذرے ذرے کی نگاہوں میں لہو
سرخ رو ہونے کی سرحد میں کہیں رہتا ہے وہ
منکشف ہوتی ہوئی حیرت میں اس کو دیکھیے
اک نگاہ خواب کی زد میں کہیں رہتا ہے وہ
اک ارادے کی طرح اجملؔ دلوں کے درمیاں
ارض جاں کی آخری حد میں کہیں رہتا ہے وہ

غزل
اضطراب خاک امجد میں کہیں رہتا ہے وہ
محمد اجمل نیازی