اظہار حال سن کے ہمارا کبھی کبھی
وہ بھی ہوئے ہیں انجمن آرا کبھی کبھی
میں اور عرض شوق مری کیا مجال ہے
ہوتا ہے اس طرف سے اشارا کبھی کبھی
راہ طلب میں اور کوئی رہنما نہیں
دیتی ہیں لغزشیں ہی سہارا کبھی کبھی
سنتا ہوں مجھ سے چھٹ کے نہیں وہ بھی مطمئن
نظروں کو ڈھونڈھتا ہے نظارا کبھی کبھی
آیا شب فراق وہ ہنگام بے کسی
خود اپنا نام لے کے پکارا کبھی کبھی
سچ ہے کہ راحتیں ہی نہیں حسن زندگی
غم نے بھی زندگی کو سنوارا کبھی کبھی
یوں طے ہوئے شجیعؔ محبت کے راستے
بڑھ بڑھ کے منزلوں نے پکارا کبھی کبھی
غزل
اظہار حال سن کے ہمارا کبھی کبھی
نواب معظم جاہ شجیع