اتنی قیمت شام سفر دوں یہ نہیں ہوگا
اپنے چراغ کو خود گل کر دوں یہ نہیں ہوگا
اب تو میری کل توقیر شجر ہے آدھا
برق کو یہ آدھا بھی شجر دوں یہ نہیں ہوگا
ہجر کو پس اندازہ کیا ہے موسم موسم
عمر کی محنت غارت کر دوں یہ نہیں ہوگا
جاؤں جو اس کے در پر دامن جاں پھیلائے
وہ پتھر دے اور میں سر دوں یہ نہیں ہوگا
سچ کی دھن میں چاہے سانسیں ہی رک جائیں
ساز کو جھوٹے سوز سے بھر دوں یہ نہیں ہوگا
کم ضو لفظ کو صورت بھی دوں مٹی بھی دوں
خود رو لفظ کو زیر و زبر دوں یہ نہیں ہوگا
منطق عصر سلیقۂ حرف حق کیا جانے
وحشی کے قبضے میں تبر دوں یہ نہیں ہوگا
میری ایک اک شاخ ہے فضل و عدل کی میزاں
چھاؤں ادھر دوں دھوپ ادھر دوں یہ نہیں ہوگا
غزل
اتنی قیمت شام سفر دوں یہ نہیں ہوگا
محشر بدایونی