EN हिंदी
اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو | شیح شیری
itne nazdik se aaine ko dekha na karo

غزل

اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو

عزیز وارثی

;

اتنے نزدیک سے آئینے کو دیکھا نہ کرو
رخ زیبا کی لطافت کو بڑھایا نہ کرو

درد و آزار کا تم میرے مداوا نہ کرو
رہنے دو اپنی مسیحائی کا دعوا نہ کرو

حسن کے سامنے اظہار تمنا نہ کرو
عشق اک راز ہے اس راز کو افشا نہ کرو

اپنی محفل میں مجھے غور سے دیکھا نہ کرو
میں تماشا ہوں مگر تم تو تماشا نہ کرو

ساری دنیا تمہیں کہہ دے گی تمہیں ہو قاتل
دیکھو مجھ کو غلط انداز سے دیکھا نہ کرو

کیسے ممکن ہے کہ ہم دونوں بچھڑ جائیں گے
اتنی گہرائی سے ہر بات کو سوچا نہ کرو

تم پہ الزام نہ آ جائے سفر میں کوئی
راستہ کتنا ہی دشوار ہو ٹھہرا نہ کرو

وہ کوئی شاخ ہو مضراب ہو یا دل ہو عزیزؔ
ٹوٹنے والی کسی شے کا بھروسا نہ کرو