EN हिंदी
اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی | شیح شیری
itne achchhe ho ki bas tauba bhali

غزل

اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی

مضطر خیرآبادی

;

اتنے اچھے ہو کہ بس توبہ بھلی
تم تو ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی

رسم عشق غیر اور میں یہ بھی خوب
ایسی کہتے ہو کہ بس توبہ بھلی

میری مے نوشی پہ ساقی کہہ اٹھا
اتنی پیتے ہو کہ بس توبہ بھلی

وقت آخر اور یہ قول وفا
دم وہ دیتے ہو کہ بس توبہ بھلی

غیر کی بات اپنے اوپر لے گئے
ایسی سمجھے ہو کہ بس توبہ بھلی

میں بھی ایسا ہوں کہ خالق کی پناہ
تم بھی ایسے ہو کہ بس توبہ بھلی

کہتے ہیں مضطرؔ وہ مجھ کو دیکھ کر
یوں تڑپتے ہو کہ بس توبہ بھلی